اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر ہوا تھا ، وفاق نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جو قانون کے مطابق نہیں تھی ، اس مقدمے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی کا کردار بھی جانبدارانہ رہا۔
نجی ٹی وی ” جیو نیوز” کے مطابق نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کور ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ جب میں نے عہدے کا چارج سنبھالا تو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کا چیلنج درپیش تھا ، از خود نوٹس کے اختیارات کا استعمال اور زیر التوا مقدمات جیسے چیلنجز تھے مگر ججز نے اپنی چھٹیوں کو قربان کیا اور جون سے ستمبر تک 6 ہزار 458 مقدمات کا فیصلہ سنایا ، خوشی ہے زیر التواء مقدمات کی تعداد 54 ہزار 134 سے کم ہو کر 50 ہزار 265 ہو گئی ، معزز ججز صاحبان نے اپنی چھٹیاں قربان کیں ، زیر التواء مقدمات کی تعداد میں کمی نے 10 سال کے اضافے کے رجحان کا خاتمہ کیا، آئندہ 6 ماہ میں مقدمات 45 ہزار تک لائیں گے ۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آبادی میں اضافے سے وسائل پر بوجھ پڑتا ہے، آبادی میں اضافے سے متعلق کیز کو جلد سنایا جائے گا، پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے مگر عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے ایسے مقدمات بھی سننے پڑتے ہیں ۔ مارچ 2022 میں ہونےو الی سیاسی معاملات کی وجہ سے سیاسی مقدمات عدالتوں میں آئے ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ پر ججز سے مشاورت کے بعد از خود نوٹس لیا اور 5 روز سماعت کے بعد رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے فیصلہ بھی تین روز میں سنایا۔ دوست مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے پر سیاسی جماعتوں نے سخت رد عمل دیا مگر تحمل کا مظاہرہ کیا ، قانون سب کیلئے برابر ہے ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقدمات کے فیصلے کا رد عمل ججز تقرری کیلئے منعقدہ اجلاس میں سامنے آیا ، جوڈیشل کمیشن اجلاس میں 5 اہم اور قابل ججز کو نامزد کیا گیا تھا ، نامزدگی کے حق میں 6 کے مقابلے میں 4 ووٹ آئے ۔ وفاق نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے مقدے پر رد عمل جوڈیشل کمیشن میں دیا ، کیا یہ رد عمل عدلیہ کے احترام کے زمرے میں آتا ہے ؟۔