اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن ) سارہ قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز امیر کے والد ایاز میر کو مقدمے سے ڈسچارج کر دیا گیا۔
نجی ٹی وی "جیو نیوز "کے مطابق سیشن کورٹ اسلام آباد میں سارہ قتل کیس کے ملزم ایاز امیر کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست پر سماعت ہوئی ۔ دوران سماعت ملزم ایاز امیر کے وکیل نے دلائل دیے کہ واقعے کے وقت ایاز امیر چکوال میں موجود تھے ، ایاز امیر کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ، پولیس نے عدالت سے وارنٹ گرفتاری حاصل کر کے ایاز امیر کو گرفتار کیا ، ایاز امیر کے خلاف اسلام آباد پولیس کے پاس ثبوت کیا ہیں ؟، اگر کوئی شخص بیرون ملک سے آرہا ہے تو اس کیس کا گواہ نہیں ہو سکتا ۔
ایاز امیر کے کیل نے کہا کہ واقعے کا معلوم ہونے پر پولیس کو اطلاع دی گئی ، 35 برسوں سے ایاز امیر کا فارم ہاؤ س سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا ملزم کو مقدمے سے بری کیا جائے ۔ وکیل نے مزید کہا کہ ایاز امیر تفتیش سے نہیں بھاگ رہے، کوئی ایسا ایکٹ بتا دیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ ایاز امیر قتل میں شامل ہیں ۔
پراسیکیوٹر کی جانب سے عدالت میں کہا گیا کہ تمام باتیں ٹرائل کی ہیں، ریمانڈ سٹیج پر دیکھا جائے گا کہ ملزم کے خلاف کیا ثبوت ملے ہیں ، کل مقتولہ کے والدین پاکستان پہنچے ہیں، انہوں نے تدفین بھی کرنا ہے اگر ہمیں لگا کہ ایاز امیر بے گناہ ہیں تو ہم ڈسچارج کر دیں گے ۔
عدالت نے سوال کیا کہ ملزم ایاز امیر کو مقدمے میں نامزد کرنے والا کہاں ہے ؟، پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ایاز امیر کو مقتولہ کے چچا نے نامزد کیا ، وہ پاکستان میں ہی ہیں ۔ عدالت نےس وال کیا کہ آپ ے پاس ایاز امیر کے خلاف کیا ثبوت ہیں ، پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ، ابھی تک یہی ثبوت ہے کہ ملزم ایاز امیر کا واٹس ایپ پر رابطہ ہوا ، سارہ انعام کے قتل کے بعد شاہنواز نے اپنے والد ایاز امیر سے رابطہ کیا ۔